Get Mystery Box with random crypto!

*علماء ومصلحین کے فتنے* بقلم: حضر ت مولانا سید محمد یوسف صاح | Urdu Tili Official

*علماء ومصلحین کے فتنے*

بقلم: حضر ت مولانا سید محمد یوسف صاحب بنور ی رحمۃ اللہ علیہ

سب سے بڑا صدمہ یہ ہے کہ علماء ومصلحین کی جماعتوں میں جو فتنے آج کل رونما ہو رہے ہیں، نہایت خطرناک ہیں ، تفصیل کے لئے موقع نہیں ہے؛ لیکن فہرست کے درجہ میں چند باتوں کو ذکر کرنا ناگزیر ہے۔

*مصلحت اندیشی کا فتنہ*

یہ فتنہ آج کل خوب برگ وبار لا رہا ہے ، کوئی دینی یا علمی خدمت کی جائے ، اس میں پیش نظر دنیاوی مصالح رہتے ہیں، اس فتنہ کی بنیاد نفاق ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سی دینی وعلمی خدمات برکت سے خالی ہیں۔

*ہردل عزیزی کا فتنہ*

جو بات کہی جاتی ہے، اس میں یہ خیال رہتا ہے کہ کوئی بھی ناراض نہ ہو، سب خوش رہیں، اس فتنہ کی اساس حب جاہ ہے۔

*اپنی رائے پر جمود واصرار*

اپنی بات کو صحیح وصواب اور قطعی ویقینی سمجھنا، دوسروں کی بات کو درخور اعتناء اور لائق التفات نہ سمجھنا، بس یہ یقین کرنا کہ میرا موقف سو فیصد حق اور درست ہے اور دوسرے کی رائے سو فیصد غلط اور باطل، یہ اعجاب بالرائے کا فتنہ ہے اور آج کل سیاسی جماعتیں اس مرض کا شکار ہیں، کوئی جماعت دوسرے کی بات سننا گوارا نہیں کرتی، نہ حقِ دینی ہے کہ مخالف کی رائے کسی درجہ میں صحیح ہو، یا یہ کہ شاید وہ بھی یہی چاہتے ہوں جو ہم چاہتے ہیں، صرف تعبیر اور عنوان کا فرق یا "الاہم فالاہم" کی تعیین کا اختلاف ہو ۔

*سوء ظن کا فتنہ*

ہر شخص یا ہر جماعت کا خیال یہ ہے کہ ہماری جماعت کا ہر ہر فرد مخلص ہے اور ان کی نیت بخیر ہے اور باقی تمام جماعتیں جو ہماری جماعت سے اتفاق نہیں رکھتیں، وہ سب خود غرض ہیں، ان کی نیت صحیح نہیں؛ بلکہ اغراض پر مبنی ہیں، اس کا منشا بھی عجب وکبر ہے ۔

*سوء فہم کا فتنہ*

کوئی شخص کسی مخالف کی بات جب سن لیتا ہے ، تو فورًا اسے اپنا مخالف سمجھ کر اس سے نہ صرف نفرت کا اظہار کرتا ہے؛ بلکہ مکروہ انداز میں اس کی تردید فرض سمجھی جاتی ہے، مخالف کی ایک ایسی بات میں جس کے کئی احتمال اور مختلف توجہیات ہو سکتی ہیں، وہی توجیہ اختیار کریں گے جس میں اس کی تحقیر وتذلیل ہو، کیا درج ذیل آیت اور حدیث مبارکہ کی نصوص مرفوع العمل ہو چکی ہیں؟ (ان بعض الظن اثم) ، اسی طرح حدیث مبارکہ (ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث) ۔بدگمانی سے بچا کرو ؛ کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے.
اور بڑے بڑے جھوٹ اسی سے پیدا ہوتے ہیں ۔

*بہتان طرازی کا فتنہ*

مخالفین کی تذلیل وتحقیر کرنا، بلا سند ان کی طرف گھناؤنی باتیں منسوب کرنا، اگر کسی مخالف کی بات ذرا بھی کسی نے نقل کردی، بلا تحقیق اس پر یقین کر لینا اور مزے لے کر محافل ومجالس کی زینت بنانا، بالفرض اگر خود بہتان طرازی نہ بھی کریں، دوسروں کی سنی سنائی باتوں کو بلا تحقیق صحیح سمجھنا، کیا یہ اس نص قرآنی کے خلاف نہیں؟ {ان جاء کم فاسق بنبأ فتبینوا}۔اگر آئے تمہارے پاس کوئی گناہ گار خبر لے کر، تو تحقیق کرلو.

*جذبہ انتقام کا فتنہ*

کسی شخص کو کسی شخص سے عداوت ونفرت یا بدگمانی ہو تو، وہ مجبورًا خاموش رہتا ہے؛ لیکن جب ذرا اقتدار مل جاتا ہے، طاقت آجاتی ہے، تو پھر خاموشی کا سوال پیدا نہیں ہوتا، گویا یہ خاموشی معافی اور درگزر کی وجہ سے نہیں تھی؛ بلکہ بے چارگی وناتوانی اور کمزوری کی وجہ سے تھی، جب طاقت آگئی، تو انتقام لینا شروع کیا، رحم وکرم اور عفو ودر گزر سب ختم ۔

*حب شہرت کا فتنہ*

کوئی دینی یا علمی یا سیاسی کام کیا جائے، آرزو یہی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ داد ملے اور تحسین وآفرین کے نعرے بلند ہوں، در حقیقت اخلاص کی کمی یا فقدان سے اور خود نمائی وریا کاری کی خواہش سے یہ جذبہ پیدا ہو گیا، در حقیقت یہ شرک خفی ہے، حق تعالی کے دربار میں کسی دینی یا علمی خدمت کے وزن اخلاص سے ہی بڑھتا ہے اور تمام اعمال میں قبول عند اللہ کا معیار ہے، اخبارات، جلسے، جلوس اور علماء کے بیرون ملکوں کے دورے زیادہ تر اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں ۔

*خطبات وتقاریر کا فتنہ*

یہ فتنہ عام ہوتا جا رہا ہے کہ لن ترانیاں انتہائی درجہ میں ہوں، عملی کام صفر کے درجہ میں ہوں، قوالی کا شوق دامن گیر ہے، عمل وکردار سے زیادہ واسطہ نہیں.

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ، كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ} (الصف: ۲ ،۳)

اے ایمان والو! کیوں کہتے ہو منہ سے جو نہیں کرتے، بڑی بیزاری کی بات ہے اللہ کے ہاں کہ کہو وہ چیز جو نہ کرو۔

خطیب اس انداز سے تقریر کرتا ہے کہ گویا تمام جہاں درد اس کے دل میں ہے؛ لیکن جب عملی زندگی سے نسبت کی جائے، تو درجہ صفر ہوتا ہے ۔

*پروپیگنڈہ کا فتنہ*

جو جماعتیں وجود میں آئی ہیں، خصوصًا سیاسی جماعتیں ان میں غلط پروپیگنڈہ اور واقعات کے خلاف جوڑ توڑ کی وبا پھیل گئی ہے جس میں نہ دین ہے اور نہ اخلاق ، نہ عقل ہے نہ انصاف ، نہ محض پورپ کی دین باختہ تہذیب کی نقالی ہے، اخبارات، اشتہارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن تمام اس کے مظاہر ہیں ۔